Saturday 22 November 2008

نظریۂ اضافیت کی تصدیق ہوگئی






وقتِ اشاعت: Friday, 21 November, 2008, 15:23 GMT 20:23 PST




نظریۂ اضافیت کی تصدیق ہوگئی

عارف وقاربی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں ڈھل سکتے ہیں اور زمان و مکان بھی ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں
لاہور کے علاقے گلبرگ میں کتابوں کی ایک دکان پر آج کل سائنس کے طالب علموں اور پروفیسروں کی غیر معمولی بھیڑ ہے کیونکہ یہاں آئین سٹائین کے مشہور زمانہ نظریۂ اضافیت کا اصل مسودہ تصویری شکل میں موجود ہے۔
بڑی تقطیع کی یہ رجسٹر نما کتاب اتنی مہنگی ہے کہ کوئی طالب علم یا استاد ذاتی طور پر اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لائبریریوں کے منتظمین شاید اس کتاب کی اہمیت و افادیت ہی سے واقف نہیں ہیں اس لئے توقع ہے کہ عرصہ دراز تک یہ کتاب شائقین کی زیارت کےلئے اس دکان میں موجود رہے گی۔
1905 کی سپیشل تھیوری کا یہ مسودہ آئین سٹائین کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور جرمن زبان میں ہے، لیکن ہر صفحے کے مقابل اسکا انگریزی ترجمہ بھی پرنٹ کر دیا گیا ہے۔ آئین سٹائین نے عبارت کے جِن حِصوں پر بعد میں قلم پھیر دیا تھا اُن پر خطِ تنسیخ اس طرح سے پھیرا گیا ہے کہ اصل عبارت صاف پڑھی جاسکے اور محققین اندازہ کر سکیں کہ عظیم ماہرِ طبیعات نے اپنے کِن بیانات کو بعد میں مسترد کر دیا تھا یا اُن میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی تھی۔
ایک سو تین برس کے بعد اچانک اِس تھیوری میں لوگوں کی دلچسپی پھر سے کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ - یہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔
آئین سٹائین نے ایک صدی پہلے اپنا اضافیت کا نظریہ محض ایک الہام کے طور پر پیش کیا تھا – ایک ایسا الہام جس کے درست ہونے پر اسے سو فیصد یقین تھا، تاہم حسابی طور پر اس نظریے کو ثابت کرنا پوری ایک صدی تک ماہرینِ طبیعات و ریاضی کےلئے ایک چیلنج بنا رہا۔
اب فرانس، جرمنی اور ہنگری کے ماہرینِ طبیعات نے انتہائی عرق ریزی سے دنیا کے بہترین سُپر کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ایٹم کے تابع ذرّات یعنی نیوٹرون اور پروٹون کی کمیت دریافت کی ہے۔ یہ تابع ذرات خود بھی چھوٹے چھوٹے ذرات کا مجموعہ ہوتے ہیں جو کہ کوارک کہلاتے ہیں اور جو شے اِن ذرات کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے اُسے گُلواون کا نام دیا گیا ہے۔
ایک صدی کی آزمائش
آئین سٹائین نے ایک صدی پہلے اپنا اضافیت کا نظریہ محض ایک الہام کے طور پر پیش کیا تھا، ایک ایسا الہام جس کے درست ہونے پر اسے سو فیصد یقین تھا، تاہم حسابی طور پر اس نظریے کو ثابت کرنا پوری ایک صدی تک ماہرینِ طبیعات و ریاضی کےلئے ایک چیلنج بنا رہا

آزمائش کے جدید آلات کے ذریعے پہلی بار ممکن ہوا ہے کہ ان تابع ذرات کی کمیت معلوم کی جاسکے اور ایسا کرنے پر یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایٹم میں کوارک ذرات کی کمیت محض پانچ فیصد ہوتی ہے جب کہ انھیں باندھ کے رکھنے والے گُلو اون کی کمیت صفر ہوتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ 95 فیصد کمیت کہاں گئی؟
فرانس، جرمنی اور ہنگری کے ماہرینِ طبیعات نے جمعرات 20 نومبر 2008 کو جو بیان جاری کیا ہے، اس کی رُو سے تابع ذرات کا 95 فیصد مادہ اُس توانائی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو اِن ذرات (کوارک اور گلواون) کی باہمی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح آئین سٹائین کا وہ اندازہ پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے جو اس نے 1905 میں لگایا تھا اور جس کی رُو سے مادہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کی دو صورتیں ہیں جو کہ ایک دوسری میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ آئین سٹائین کی معروف مساواتE = mc2کا مفہوم سادہ لفظوں میں یہی ہے کہ مادہ تبدیل ہو کر توانائی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور توانائی اپنا روپ بدل کر مادہ بن سکتی ہے، جیسا کہ ’بِگ بینگ‘ کے بعد کائناتی ارتقاء میں ہوا اور چار سُو پھیلی ہوئی ہمہ گیر اور یکساں توانائی جگہ جگہ سِمٹ کر ٹھوس اجسام میں بدل گئی اور اس سِمٹاؤ سے اس ہمہ گیر خلا میں جگہ جگہ سقم یا ٹیڑھا پن آگیا اور یہی ٹیڑھاپن آج ٹھوس اجسام کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور کششِ ثقل کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اجرامِ فلکی توانائی کی بے پناہ مقدار کے سِمٹ کر ٹھوس ہو جانے کے باعث وجود میں آئے ہیں اس لئے ہر ٹھوس شے کا باطن اپنے اندر توانائی کا طوفان دبائے ہوئے ہے۔
ایٹم بم کی ساخت کے پیچھے یہی نظریہ کافرما تھا کہ مادے میں قید توانائی کو کسی طرح آزاد کردیا جائے تو وہ تباہی مچا دےگی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اولین ایٹمی دھماکے سے بہت پہلے علامہ اقبال نے بھی الہام کے زور پہ کہہ دیا تھا کہ:حقیقت ایک ہے ہرشے کی خاکی ہو کہ نوری ہولہو خورشید کا نکلے، اگر ذرّے کا دِل چیریں !
آئین سٹائین تختۂ سیاہ پر مشہور زمانے اکویشن تحریر کرتے ہوئےفرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق نے جو بیان جاری کیا ہے اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماہرینِ طبیعات نہ صرف ذرّے کا دِل چیرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ نئے آلاتِ پیمائش کی مدد سے انھوں نے آئین سٹائین کے سو برس پرانے اس مفروضے پر بھی مہرِ توثیق ثبت کردی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں ڈھل سکتے ہیں اور زمان و مکان بھی ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔

Friday 21 November 2008

e=mc2: 103 years later, Einstein's proven right

e=mc2: 103 years later, Einstein's proven right


Digg Facebook Newsvine del.icio.us Reddit StumbleUpon Technorati Yahoo! Bookmarks Print Thu Nov 20, 6:56 pm ET AFP/File – People walk past a giant sculpture featuring Albert Einstein's formula "E=mc2" in front … PARIS (AFP) – It's taken more than a century, but Einstein's celebrated formula e=mc2 has finally been corroborated, thanks to a heroic computational effort by French, German and Hungarian physicists.

A brainpower consortium led by Laurent Lellouch of France's Centre for Theoretical Physics, using some of the world's mightiest supercomputers, have set down the calculations for estimating the mass of protons and neutrons, the particles at the nucleus of atoms.

According to the conventional model of particle physics, protons and neutrons comprise smaller particles known as quarks, which in turn are bound by gluons.

The odd thing is this: the mass of gluons is zero and the mass of quarks is only five percent. Where, therefore, is the missing 95 percent?

The answer, according to the study published in the US journal Science on Thursday, comes from the energy from the movements and interactions of quarks and gluons.

In other words, energy and mass are equivalent, as Einstein proposed in his Special Theory of Relativity in 1905.

Saturday 1 November 2008

ایرانی لسّی اور امریکی الیکشن

وقتِ اشاعت: Friday, 31 October, 2008, 13:10 GMT 18:10 PST

ایرانی لسّی اور امریکی الیکشن

عارف وقاربی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام شخص صدارتی انتخاب لڑ رہا ہے
مرکزی لندن میں بی بی سی کا ہاسٹل جس علاقے میں واقع ہے، وہاں مشرقِ وسطیٰ کے متمول باشندوں کی خاصی بڑی آبادی ہے۔ راقم نے وہاں قیام کے دوران عرب ڈھابوں اور ریستورانوں کے بیچوں بیچ ایک ایرانی دوکان کا سراغ لگایا جہاں بوتل بند ایرانی لسّی دستیاب تھی۔
ساتویں جماعت میں ’ٰ کس نگوید کہ دوغِ من ترش است‘ کا مقولہ پڑھا تھا اور دُوغ (لسّی) کا مطلب اچھی طرح یاد تھا، لیکن اس محاورے کے برعکس لندن کا ایرانی دوکاندار فخر سے بتاتا تھا کہ خیلی تُرش است ۔۔۔ اور سچ جانیئے تو یہ تُرشی ہی اُس ایرانی لسّی کا اصل لطف تھا کیونکہ یہ باسی پن کی پیدا کردہ نہیں تھی بلکہ لیموں یا اسی قبیل کے کسی پھل کی پیدا کی ہوئی تُرشی تھی۔
کس نگو ید کہ دوغِ من تُرش است
ایک روز میں لسی خریدنے کے لیے اپنی باری کا منتظر تھا کہ ایک ادھیڑ عمر ایرانی خاتون تیزی سے داخل ہوئی اور لائن کی پروا نہ کرتے ہوئے سیدھی کاؤنٹر پر جا کھڑی ہوئی۔ لباس اور وضع قطع سے شاہِ ایران کے دور کی بھگوڑی مخلوق لگتی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ فرار کے وقت تہران کی چیدہ حسیناؤں میں شمار ہوتی ہوگی لیکن اب اس کٹی پتنگ کی تناویں خاصی ڈھیلی ہو چکی تھیں اور اعضائے نطق پر بھی قابو نہیں تھا، چنانچہ دورانِ تکلّم منہ سے اُڑنے والے لعاب کی پھوار دُور دُور تک مار کر رہی تھی۔
روز مرہ معاملات میں لندن کے فراخ دِل انگریز غیر ملکیوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو معاف کرنے کے عادی ہو چُکے ہیں لیکن لائن بنانا اُن کے لیے ایک ایسی مقدس رسم ہے کہ اسکی خلاف ورزی کرنے والے کو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب گردانتے ہیں۔ اب لائن توڑ کر کاؤنٹر پر جا پہنچنے والی خاتون یا تو دکاندار کی کوئی ماں بہن ہوگی یا پھر گاہکوں نے اس لیے احتجاج نہیں کیا کہ ان میں سے اکثر خود غیر انگریز تھے۔
کاؤنٹر پہ کھڑے لڑکے نے بیئر کا ڈبا خاتون کو لاکر دیا تو اس نے ناگواری سے لوٹادیا اور فارسی میں کچھ ہدایات دیں جو ظاہر ہے کہ میری سکول والی کتابی فارسی سے بہت ماوراء تھیں۔ لڑکا ہدایات سن کر پھر سے گوہرِ مقصود کی تلاش میں گودام کی طرف چلا گیا۔ کاؤنٹر کو خالی دیکھ کر چھٹے ساتویں نمبر پر انتظار کرنے والے ایک گاہک نے بلند آواز میں احتجاج شروع کیا تو دوکان کے ایک گوشے سے اس لڑکے کے باپ کی عمر کا ایک شخص اُونگھتا ہوا کاؤنٹر پر آگیا اور خاتون سے پوچھنے لگا کہ کیا مسئلہ ہے۔ اِس بیئر میں کیا خرابی ہے؟ خاتون نے جو لمبا چوڑا جواب دیا اسکا صرف ایک جملہ میری گرفت میں آسکا: ’بیئر بزرگ فی خواہم‘ یعنی خاتون کو بزرگ بیئر درکار تھی۔
فارسی میں بزرگی کا تعلق سائز سے ہوتا ہے نہ کہ عمر سے۔ بیئر کا ڈبہ بھی اگر سائز میں بڑا ہوگا تو بزرگ ہی کہلائے گا۔ چنانچہ ایران میں جب امریکہ کو شیطانِ بزرگ کہا جاتا ہے تو اس بزرگی میں اسکی جہاندیدگی، تجربے یا وقار و تمکنت کی طرف ہرگز اشارہ نہیں ہوتا بلکہ بدی، خباثت اور شیطنت کی انتہا مراد ہوتی ہے

خاصی حیرت ہوئی کہ بیئر میں بزرگی کیسی؟ اگر بزرگی سے مراد کہنگی ہے تو شرابِ کہنہ کی صِفت بیئر پر تو ہرگز صادق نہیں آتی۔۔۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد لڑکا گودام سے بیئر کا ایک بالشت بھر لمبا ڈبا لے آیا۔ خاتون نے مسکرا کر ڈبا وصول کیا، پیسے ادا کیے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔
اس روز راقم پر پہلی بار کھُلا کہ فارسی میں بزرگی کا تعلق سائز سے ہوتا ہے نہ کہ عمر سے۔ بیئر کا ڈبہ بھی اگر سائز میں بڑا ہوگا تو بزرگ ہی کہلائے گا۔ چنانچہ ایران میں جب امریکہ کو ’شیطانِ بزرگ‘ کہا جاتا ہے تو اس بزرگی میں اسکی جہاندیدگی، تجربے یا وقار و تمکنت کی طرف ہرگز اشارہ نہیں ہوتا بلکہ بدی، خباثت اور شیطنت کی انتہا مراد ہوتی ہے۔
امام خمینی کے دور میں زبان زدِ خاص و عام ہو جانے والی یہ اصطلاح میڈیا کے سرپٹ گھوڑے پر سوار جلدہی وطنِ عزیز میں بھی وارد ہوگئی اور جلسوں جلوسوں میں شیطانِ بزرگ کو لعن طعن کرنے والے پوسٹر اور پلے کارڈ نظر آنے لگے۔
آج کل ’شیطانِ بزرگ‘ کے یہاں صدارتی انتخابات کا غلغلہ ہے اور اُس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام شخص صدارتی انتخاب لڑ رہا ہے۔
اِدھر ہمارے یارانِ تیزگام کا حال کچھ ایسا ہے کہ اخباروں میں بندوق بردار فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالد کی تصویر دیکھتے ہی اسلامی تاریخی ناول کے ہیرو کی طرح گھوڑے کا رخ یروشلم کی طرف کر کےاس زور کی ایڑ لگاتے ہیں کہ گھوڑا بلبلا اُٹھتا ہے، لیکن آدھے راستے میں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ خاتون تو کرسچن ہے۔۔۔ سارا جوش و خروش دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور شہسوار وطن کی طرف باگ موڑ لیتا ہے۔
صدر آئزن ہاور کے زمانے میں ہمارے یہاں خُشک دودھ کا سیلاب آگیا تھا
یاسرعرفات اِن کی نگاہوں میں اسی وقت تک معتبر و متبرک تھا جب تک ان کی بیگم کا راز اِن پر فاش نہ ہوا تھا۔۔۔ جس روز معلوم ہوا کہ خاتون عیسائی ہیں، یاسر عرفات کا سارا جہاد مٹی میں مِل گیا۔
اب ایک سفید فام امریکی کے مقابل ایک کالا کھڑا ہوگیا تو بھائی میاں نے سوچا کہ یہ اپنا ہم رنگ تو ہے، کاش یہ ہم مذہب بھی ہوتا۔ تھوڑی سی کھینچ تان کرکے اسکے بزرگوں کو مسلمان کردیا اور اسکا اصل نام بُرّاق حسین قرار دے دیا۔ اب بھائی میاں کی اگلی خواہش یہ تھی کہ برخوردار براق حسین اسرائیل کے خلاف ایک دھواں دار بیان جاری کریں، افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی کاروائی کی مذمّت کریں اور اس شِق کو اپنے انتخابی پروگرام کا جزو بنائیں کہ مسندِ صدارت پر متمکن ہوتے ہی عراق، افغانستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک سے امریکی فوجیں واپس بلا لی جائیں گی اور آئندہ کسی اسلامی ملک کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن:اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پچھلے 61 برس میں پاکستان نے کئی ڈیموکریٹ اور کئی ری پبلکن صدر بھگتائے۔ صدر آئزن ہاور کے دور میں خشک دودھ کے جناتی کنٹینر اور کینڈی کے زمانے میں سُرخ گندم کے جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے رہے۔ ریگن کے دور میں ہم نے امریکی اسلحے کی ریل پیل بھی دیکھی اور ڈالر کی سپلائی تو ہر دور میں جاری رہی۔
ہماری معیشت، ہماری فوج، ہمارا تعلیمی نظام، ہمارا زرعی ڈھانچہ اور ہمارا صحتِ عامہ کا نظام، یہ سب کچھ امریکی امداد کا دست نگر ہے لیکن پھر بھی ہم خم ٹھونک کر امریکہ کو للکارتے ہیں اور ’شمالی سرحد پر امریکی طیاروں کو مار بھگایا‘ کی سرخی اخبار میں جما کر فخر سے سینہ پھُلا لیتے ہیں۔
ہمارے زِیرک حکمران اس حقیقت کو پا چُکے ہیں کہ ’شیطانِ بزرگ‘ سے پنجہ آزمائی کی بجائے اسکا چیلا بننے ہی میں ہماری نجات ہے، لیکن عوام اگر اس تلخ حقیقت کو نہیں ماننا چاہتے تو اُن کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ بے حِسی کی کھٹی لسّی کے دوچار گلاس چڑھائیں اور بے خبری کی چادر تان کر گہری نیند سو جائیں۔