Saturday 6 June 2009

سرجن بابا: روحانی آپریشن سے علاج








آخری وقت اشاعت: Thursday, 4 june, 2009, 20:18 GMT 01:18 PST


سرجن بابا: روحانی آپریشن سے علاج

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ٹھٹہ، سندھ

مزار کے احاطے کے اندر اور باہر کوئی ایک درجن کے قریب افراد زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں
دونوں بڑے کمروں میں سے درد انگیز چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں مگر یہ کسی ہسپتال کا منظر نہیں بلکہ شاہ یقیق اور جلالی بابا کی درگاہوں پر موجود مرد اور عورتوں کی آوازیں تھیں جو درگاہ کے جنگلوں سے لپٹے ہوئے تھے۔
سندھ کےساحلی شہر ٹھٹہ سے تقریباً اسی کلومیٹر دور سجاول روڈ پر واقع ان دونوں درگاہوں پر کئی لوگ اپنی بیماریاں لے کر آتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ وہ یہاں سے صحتیاب ہوکر جائیں گے۔ ان مزاروں پر سارا دن زائرین کی آمد جاری رہتی ہے۔
شاہ یقیق عرف سرجن بابا کی درگاہ پر آنے والے زائرین کا ماننا ہے کہ جن بیماریوں کا علاج بڑے بڑے سرجن نہیں کرسکے ان بیماریوں میں مبتلا مریض یہاں روحانی آپریشن کے بعد صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ہی کسی عقیدت مند نے مزار کے دروازے پر سرجن بابا لکھوا دیا ہے۔
درگاہوں میں ایک مسافر خانہ بھی موجود ہیں جسے وارڈ تصور کیا جاتا ہے اور زمین پر لگے ہوئے بستر بیڈ سمجھے جاتے ہیں۔
مسافر خانے کے بستر نمبر ایک پر موجود مسماۃ توفیق گزشتہ بیس سال سے یہاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا تھا جس کے بعد انہیں خواب میں حکم ہوا اور وہ یہاں آگئیں۔
جب یہاں آئی تو ڈھانچہ تھی اور مرنے کے قریب تھی مگر خدا کا شکر ہے کہ یہاں شاہ یقیق نے ہمارے پر ہاتھ رکھا اور زہر نکالا ورنہ میں نے تو چھ ماہ سے روٹی بھی نہیں کھائی تھی صرف دلیہ کھا رہی تھی
توفیق جہاں
’میں جب یہاں آئی تو ڈھانچہ تھی اور مرنے کے قریب تھی مگر خدا کا شکر ہے کہ یہاں آئی تو انہوں نے ( شاہ یقیق ) نے ہم پر ہاتھ رکھا اور زہر نکالا ورنہ میں نے تو چھ ماہ سے روٹی بھی نہیں کھائی تھی صرف دلیہ کھا رہی تھی۔‘
یہاں آنے والے زائرین میں اکثر شوگر، کینسر، گردے ، پیٹ کی تکلیف اور بینائی کی کمزوری جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ان میں بزرگ عبدالرحمان بھی شامل ہیں جو ہزارہ کے رہائشی ہیں۔’پاؤں میں شوگر کا زخم تھا جو ٹھیک ہوگیا مگر دوبارہ ہوگیا ہے پھر ٹھیک ہوجائے گا۔‘ عبدالرحمان کو درگاہ پر آئے گیارہ سال ہوگئے ہیں۔ وہ شوگر میں مبتلا ہونے کے باوجود کوئی پرہیز نہیں کرتے مگر پھر بھی انہیں یقین ہے کے زخم ٹھیک ہوجائے گا۔
شاھ یقیق کے مزار پر لنگر حاصل کرنے کے لئے ہسپتال جیسا ہی نظام رائج ہے یعنی مریض کا نام درج کرانا لازمی ہے۔
مزار پر ایک نوجوان مچھیرے سے بھی ملاقات ہوئی جن کو پیٹ میں تکلیف کی شکایت تھی۔ ان کا کہنا ہے ڈاکٹر اس بیماری کا پتہ نہیں چلا سکے اس لیے وہ یہاں آئے ہیں اور اب بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں۔
مزار کے داخلی راستے پر ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں تصویر اتارنے سے منع کیا گیا ہے اور برابر میں موجود قبریں جو سید زادیوں کی بتائی جاتی ہیں وہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے۔
احاطے میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر ایک شخص نے کئی پڑیاں لٹکا رکھی ہیں۔ لوگ پانچ، دس یا اس سے زائد روپے دے کر یہ پڑیاں لیتے ہیں۔ اس شخص نے پوچھنے پر بتایا کہ ان میں صرف نمک ہے جبکہ دیئے میں استعمال ہونے والے تیل بھی وہ تبرک کے طور پر دیتے ہیں۔

یہاں آنے والے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر بھوت پریت کا سایہ یا ان پر جادو کیا گیا ہے
مزار کے باہر ایک قدیمی کنواں موجود ہے جس کے پانی کی شفاء کی کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
شاہ یقیق کے مزار سے چند قدم کے فاصلے پر عبداللہ شاہ بخاری عرف جلالی بابا کا مزار ہے۔ اس مزار کے چاروں طرف زمین پر لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہاں کوئی والدہ کو لے کر آیا ہے، کوئی والد تو کوئی اپنی نوجوان لڑکی کی وجہ سے پریشان نظر آتا ہے۔
یہاں آنے والے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر بھوت پریت کا سایہ یا ان پر جادو کیا گیا ہے۔
کراچی سے آنے والی ایک خاتون نے بتایا ’مجھ پر شادی سے پہلے ہی سفلی کالا علم کیا گیا تھا جس میں شادی کی بندش بھی تھی مگر ظاہر بعد میں ہوا۔ میں نے سنا تھا کہ یہاں غیبی علاج ہوتا ہے مگر مانتی نہیں تھی کیونکہ ہم وہابی مسلک کے لوگ ہیں۔ یہاں میں آئی اور دعا مانگی کہ اگر آپ واقعی علاج کرتے ہیں تو مجھے گھر سے بلا لیں۔ جس کے بعد گھر گئی اور بشارت ملی۔‘
یہ خاتون جنہیں اب طلاق ہوچکی ہے کا کہنا ہے کہ انہیں یہ پتہ ہے کہ ان پر کس نے جادو کیا ہے اور یہ سب کچھ انہیں حاضری میں بتایا گیا ہے اور یہ بات جادو کرنے والی خاتون بھی جانتی ہیں۔
ان مزاروں پر مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ نظر آتے ہیں۔ جلالی بابا کے مزار کے کمرے میں عطر کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ اور چندے کی پیٹی پر ایک شخص موجود ہے جو مور کے پروں سے بنا ہوا جھاڑو سر پر پھیرتا ہے اور زائرین حسب حیثیت رقم پیٹی میں ڈال دیتے ہیں۔
لوگوں کو زنجیروں سے باندھنا جرم ہے اور وہ لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں ۔ مگر ان کا کنہا ہے کہ یہ مریض بھاگ جائیں گے اور کسی کو نقصان پہنچائیں گے۔جس کے بعد وہ خود ان کو باندھ دیتے ہیں
محمد عرس
شاھ یقیق اور جلالی بابا کے مزاروں کے درمیاں موجود گلی میں بازار ہے جس میں ہوٹل اور پھولوں کے دوکانیں ہیں جن سے ہر زائرین پانچ روپے کی اگربتی، پانچ کے پھول اور دس روپے کا تیل خریدتا ہے۔ جبکہ ہوٹل پر بھارتی فلموں کے گیتوں کے ساتھ قوالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
محمد شریف جن کی عمر ساٹھ سال ہوگی اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
محد شریف نے بتایا کہ ’ پہلے بھی آئے تھے سرکار نے ٹھیک کردیا تھا، گھر جاتے ہیں یہ چیخ و پکار کرتے اور دوڑتے ہیں ۔ لیکن یہاں آ کر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ نشے نہیں کرتے وہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے کہتے ہیں کہ یہ سب حاضری والے ہیں کسی پر جنات تو کسی پر بھوت ہے ۔‘
ایک نوجوان لڑکی جس نے شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ابایا پہنا تھا۔ مزار کے اندر چکر لگاتی رہی تھی جبکہ اس کے پیچھے اس کی ماں آہستہ آہستہ چل رہی تھی ۔وہاں ایسی کئی اور بھی نوجوان لڑکیاں تھیں جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔
ان لڑکیوں میں سے ایک کے والد سے بیماری دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ’ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں بخار آتا ہے ڈاکٹروں کے پاس گئے تھے مگر فائدہ نہیں ہوا جس کے بعد خواب میں حکم ہوا اور انہیں یہاں لے کر آ گئے ہیں۔ ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ جس کا ایمان سچا ہے وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جاتا لیکن وقت ضرور لگتا ہے ۔‘
دونوں مزاروں پر ٹھٹہ اور بدین کے ان علاقوں سے لوگ آتے جہاں صحت کی کوئی سہولت نہیں مگر اکثریت کراچی کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی ہے۔
جلالی بابا کے مزار کے عقب میں موجود ہوٹلوں کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہوتا ہے جہاں سے لوگ مٹی نکال کر چہرے، سر اور آنکھوں کو ملتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے انہیں راحت ملتی ہے۔
مزار کے احاطے کے اندر اور باہر کوئی ایک درجن کے قریب افراد زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں مزاروں کی سرپرستی حکومت کا محکمہ اوقاف کرتا ہے۔ محکمہ کے اہلکار محمد عرس خود بھی معجزات اور ان مزاروں سے شفا ملنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں کو زنجیروں سے باندھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ جرم ہے اور وہ لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے یہ رشتہ دار بھاگ جاتے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچائیں گے اس لیے وہ خود ہی ان کو باندھ دیتے ہیں۔
شاہ یقیق اور جلالی بابا کی مزاروں کے قریب کچھ دیگر مزار بھی موجود ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اب بنے ہیں۔ لیکن اب ان پر بھی لوگ جاکر دیئے روشن کرتے ہیں۔
دونوں مزاروں پر ٹھٹہ اور بدین کے ان علاقوں سے لوگ آتے جہاں صحت کی کوئی سہولت نہیں مگر اکثریت کراچی کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی ہے۔
چار سو گھروں پر مشتمل گاؤں شاہ یقیق میں پینے کے صاف پانی کی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ جبکہ مزاروں کی موجودہ عمارتیں بھی زائرین نے ہی بنوائی ہیں ۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ درگاہیں روزگار کا ذریعہ اور زائرین کے لیے بیماری سے نجات کا وسیلہ ہیں۔

Wednesday 20 May 2009

بلڈ پریشر پر قابو کے لیے دوائیں

آخری وقت اشاعت: Wednesday, 20 may, 2009, 10:19 GMT 15:19 PST








بلڈ پریشر پر قابو کے لیے دوائیں
سے بڑی عمر کے لوگوں کو فشار خون یا بلڈ پریشر پر قابو کے لیے دواؤں کا استعمال ضرور کرناچاہیے۔
وبائی امراض کی روک تھام کرنے والے پروفیسر میلکوم لا کا کہنا ہے کہ خون کا دباؤ پر قابو کی دواؤں کے استعمال سے نہ صرف ہائی بلکہ نارمل بلڈ پریشر والے لوگ بھی ہارٹ اٹیک یا دل کے دورے سے بچ سکتے ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لیے ایک سو سینتالیس جائزوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جن میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ افراد سے رابطہ کیا گیا۔
تاہم سٹروک ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ اس طریقہ علاج کے منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔
اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی زیادہ تر دواؤں سے ہارٹ اٹیک اور دل کے مکمل طور پر کام بند ہونے جیسے مراحل کو ایک چوتھائی جبکہ دیگر امراض کے خطرات کو ایک تہائی تک کم کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق میں خون کے دو طرح کے دباؤ جائزہ لیا گیا۔ ایک سسٹولک پریشر یعنی وہ دباؤ جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خون دل سے شریانوں میں جاتا ہے اور دوسرا ڈاسٹولک پریشر جو شریانوں میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دل آرام کرتا ہے۔
پروفیسر لا جو لندن سکول آف میڈیسن کے محقق ہیں کا کہنا ہے کہ ایک خاص عمر تک پہنچنے کے بعد ہر شخص کو ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ ان تمام افراد کو اسے کنٹرول کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

محقق: پروفیسر لا
ان کا مزید کہنا تھا کہ انگلینڈ اور ویلز میں پینسٹھ سال سے زائد عمر کے افراد میں اگلے دس سال میں دس فی صد مردوں جبکہ پانچ فی صد خواتین میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ موجود ہے۔
لیکن کہا جاتا ہے کہ پروفیسر لا بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والی دوا ’پولی پل‘ کے خالق ہیں جو ان کے خیال میں برطانیہ ہارٹ اٹیک اور دل کے دوسرے امراض میں کمی لانے کے لیے موثر ثابت ہو سکتی ہے۔
لیکن سٹروک ایسوسی ایشن کے جون مرفی کا کہنا ہے کہ ’دماغ کی شریان پھٹنے کی واحد وجہ ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہے لہٰذا یہ بہت ا ہم ہے کہ اس کو قابو کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کیا جائے۔ تاہم ان ادویات کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کا استعمال صرف ان لوگوں کو تجویز کیا جائے جو انتہائی خطرے سے دوچار ہوں۔‘
بلڈ پریشر ایسوسی ایشن کے مائیک رچ کا کہنا ہے کہ’پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ لہٰذا ہائی بلڈ پریشر کو وزن کم


کر کے، زیادہ پھل اور سبزیاں کھا کے، کھانے میں نمک کی مقدار کم کر کےکنٹرول کیا جا سکتا ہے

http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2009/05/090520_blood_pressure_pill_rr.shtml
۔

Tuesday 19 May 2009

Former President, Gen (R) Pervez Musharraf appears on CNN’s Fareed Zakaria program

Musharraf- US Failure in Afghanistan Brought Taliban to Pakistan Also
Posted on 18 May 2009 Tags: , , , , , , , , , , , , , ,
Former President, Gen (R) Pervez Musharraf appears on CNN’s Fareed Zakaria program GPS. He gives candid responses to Zakaria’s probing questions with frankness and outspokenness including calling a spade a spade with respect to Pak-Afghan relations, Pak-US friendship over the years, shortcomings of the War on Terror being fought in Afghanistan, and how Taliban now control more than 50 percent of Afghanistan thereby becoming a problem for Pakistan rather than the other way as being perceived by many.
Fareed Zakaria of CNN’s sit-down with Pervez Musharraf was an exclusive interview. Musharraf is the guest for the hour and they also discuss his years in power and resignation, Pakistan’s deadly struggle against the Taliban, strained relations between India and Pakistan, and Benazir Bhutto’s death including charges that he might have been involved in it.
Plus, Musharraf explains what happened to America’s $10 billion in aid to Pakistan over the last 10 years, and whether or not he would consider running again for office. A Must Watch!



http://pkonweb.com/2009/05/18/musharraf-interviewed-by-fareed-zakaria-on-cnn/







Saturday 2 May 2009

وسٹا کے بعد ونڈوز 7 تیار

















آخری وقت اشاعت: Saturday, 2 may, 2009, 02:37 GMT 07:37 PST

http://www.bbcurdu.com/


وسٹا کے بعد ونڈوز 7 تیار

سافٹ ویئر کی سب سے بڑی کمپنی مائیکرو سافٹ اگلے ہفتے ونڈوز کے نئے ورژن کی نمائش کر رہی ہے۔
نیا سافٹ ویئر’ونڈوز سیون‘ ونڈوز وسٹا کے بعد کا ورژن ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس بار وہ سب کچھ نہیں ہوگا جو ونڈوز وسٹا کے اجرا کے موقع پر ہوا تھا۔
ونڈوز وسٹا کے اجرا پر صارفین نے شکایت کی تھی کہ یہ پروگرام دوسرے کئی سافٹ ویئر سے ہم آہنگی نہیں رکھتا جس کی وجہ انہیں اپنے کمپیوٹروں پر مزید رقم خرچ کرنی پڑی تھی۔
مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ ونڈوز سیون کی دوسرے تمام پروگرموں سے ہم آہنگی ہو گی اور صارفین کو ونڈوز سیون استعمال کرنے کے لیے نئے کمپیوٹر یا موجودہ کمپیوٹر کے اپ گریڈ پر خرچا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
برطانیہ میں مائیکروسافٹ کےڈائریکٹر جان کرن نے بی بی سی کو بتایا کہ ونڈوز وسٹا کی لانچ کےموقع پر بعض صارفین کو مشکلات پیش آئی تھیں لیکن اس بار ایسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جان کرن نے کہا کہ مائیکروسافٹ نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اور اپنے پارٹنرز کے ساتھ ملکر ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو تمام پرانے سافٹ ویئر سے مطابقت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا جن صارفین کے کمپوٹر ونڈوز وسٹا چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ونڈوز سیون بھی چلا سکیں گے۔
مائیکروسافٹ نے ونڈوز وسٹا کو پہلی نمائش کے پانچ ماہ بعد صارفین کے لیے جاری کر دیا تھا لیکن ونڈوز سیون کے بارے میں کمپنی کوئی تاریخ دینے سے گریزاں ہے۔
مائیکروسافٹ ڈائریکٹر جان کرن کا کہنا ہے کہ ونڈوز سیون صرف اسی وقت جاری کیا جائے گا جب وہ تیار ہوگا۔انہوں نے کہا مائیکروسافٹ نے ونڈوز وسٹا کے اجرا کے تین سال کے بعد نیا ورژن جاری کرنے کا پروگرام بنایا تھا اوراس کے مطابق جنوری دو ہزار دس میں ونڈوز سیون صارفین کی دسترس میں ہونا چاہیے۔
جن کمپوٹر ماہرین کو ونڈوز سیون کو ٹیسٹ کرنے کا موقع ملا ہے ان کا کہنا ہے کہ نیا سافٹ ویئر ونڈوز وسٹا سے رفتار میں بہتر ہے اور اس کے ساتھ کمپیوٹر کے آن اور آف ٹائم میں خاصی کمی ہو جاتی ہے۔

Monday 27 April 2009

یونیسکو کی مفت ڈیجیٹل لائبریری

یونیسکو کی مفت ڈیجیٹل لائبریری
http://www.bbcurdu.com/
آخری وقت اشاعت: Tuesday, 21 april, 2009, 14:38 GMT 19:38 PST











یہ لائبریری اقوامِ متحدہ کی سات سرکاری زبانوں میں دستیاب ہے
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے، یونیسکو نے انٹرنیٹ پر ایک ایسی ڈیجیٹل لائبریری کی بنیاد رکھی ہے جس پر پوری دنیا کی لائبریریوں اور قدیم دستاویزات کا مواد مہیا کیا گیا ہے۔
اس مواد میں گیارہویں صدی کا ایک جاپانی ناول، امریکہ کے نام کے ساتھ پہلا نقشہ اور جنوبی افریقہ سے ایک آٹھ ہزار سال پرانی ہرن کی تصویر بھی شامل ہے۔
دنیا کی تین اہم ڈیجیٹل لائبریریوں میں شامل یہ لائبریری دنیا کا ہر فرد بغیر کسی معاوضے کے استعمال کر سکتا ہے۔
یہ لائبریری اقوامِ متحدہ کی سات سرکاری زبانوں میں دستیاب ہے جن میں انگریزی، عربی، چینی، فرنچ، پرتگیزی، روسی اور ہسپانوی شامل ہیں۔
یونیسکو کا کہنا ہے کہ یہ لائبریری دنیا کے ثقافتی خزانوں کو ڈیجیٹل شکل میں ایک وسیع طبقے تک پہچانے کی کوشش ہے اور امید ہے کہ اس سے غریب اور امیر کے درمیان ’ ڈیجیٹل تقسیم‘ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

Sunday 29 March 2009

عالمی سائبر جاسوسی نظام کا انکشاف






آخری وقت اشاعت: Sunday, 29 March, 2009, 06:04 GMT 11:04 PST http://www.bbcurdu.com/

عالمی سائبر جاسوسی نظام کا انکشاف

ہیکرز نے دلائی لامہ کے دفتر سے حساس معلومات چرائی ہیں
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے محققین نے دعوٰی کیا ہے کہ ایک عالمی سائبر جاسوسی نظام کی مدد سے ہیکرز نے دنیا بھر کے ایک سو تین ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی ہے۔

یہ بات انفارمیشن وار فئیر مانیٹر نامی گروپ کی دس ماہ کی تحقیق کے بعد آن لائن شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

محققین کے مطابق ’گھوسٹ نیٹ‘ نامی یہ جاسوسی نظام بنیادی طور پر چین میں قائم ہے اور اس کا نشانہ بنیادی طور پر ایشیائی حکومتیں رہی ہیں جبکہ اس کے ہیکرز نے دلائی لامہ اور دیگر تبتی جلا وطن شخصیات کے کمپیوٹرز بھی کھنگالے ہیں۔

کینیڈین گروپ کے رکن گریگ والٹن کے مطابق ’ ہمارے ہاتھ ایسے ثبوت لگے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ تبتی کمپیوٹر نظام میں داخل ہو کر دلائی لامہ کے نجی دفتر سے حساس معلومات چرائی گئی ہیں‘۔

اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلہ دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً تیرہ سو کمپیوٹرز ہیک کیے گئے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس جاسوسی نظام کا مرکز چین ہے لیکن اسے چلانے والے ہیکرز کی شناخت یا عزائم کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس سلسلے میں جب چین کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات سے رابطے کی کوشش کی گئی تو وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔

سائبر جاسوسی پر تحقیق کرنے والے کینیڈین گروپ نے اپنی تحقیق کے دوران پتہ چلایا کہ اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلہ دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً تیرہ سو کمپیوٹرز ہیک کیے گئے۔ ان کمپیوٹرز تک رسائی کے بعد ہیکرز نے ان میں ایسے سافٹ ویئر نصب کر دیے جن کی مدد سے نہ صرف وہ انہیں کنٹرول کر سکتے تھے بلکہ ان پر موجود مواد بھی باہر بھیج سکتے تھے۔

اس تحقیق میں شامل کیمرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے دو محققین بھی اسی سلسلے میں ایک رپورٹ اتوار کو جاری کر رہے ہیں۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2009/03/090328_china_spy_network_zs.shtml

Monday 2 March 2009

Caught on film: India ‘not shining’ Arundhati Roy – Exclusive for Dawn.com








Caught on film: India ‘not shining’
Arundhati Roy –
Exclusive for Dawn.com Monday, 02 Mar, 2009 11:05 AM PST




'Slumdog Millionaire' child actor Azharuddin Mohammed Ismail is served his dinner by his mother Shamim Begum, right, in his home in a slum in Bandra, suburban Mumbai, India, Thursday, Feb. 26, 2009. The child stars of the Oscar-winning “Slumdog Millionaire” have returned to India to a chaotic, but rousing, heroes' welcome, following their appearance on the red carpet at the recent Oscar ceremony, where the movie “Slumdog Millionaire,” a tale of hope amid adversity set in Mumbai, was awarded eight Oscars, including best picture and best director for Danny Boyle. – AP Photo


The night before the Oscars, in India, we were re-enacting the last few scenes of Slumdog Millionaire. The ones in which vast crowds of people – poor people – who have nothing to do with the game show, gather in the thousands in their slums and shanty towns to see if Jamal Malik will win. Oh, and he did. He did. So now everyone, including the Congress Party, is taking credit for the Oscars that the film won!



The party claims that instead of India Shining it has presided over India 'Achieving'. Achieving what? In the case of Slumdog, India's greatest contribution, certainly our political parties’ greatest contribution is providing an authentic, magnificent backdrop of epic poverty, brutality and violence for an Oscar-winning film to be shot in. So now that too has become an achievement? Something to be celebrated? Something for us all to feel good about? Honestly, it's beyond farce.

And here’s the rub: Slumdog Millionaire allows real-life villains to take credit for its cinematic achievements because it lets them off the hook. It points no fingers, it holds nobody responsible. Everyone can feel good. And that’s what I feel bad about.



So that’s about what’s not in the film. About what’s in it: I thought it was nicely shot. But beyond that, what can I say other than that it is a wonderful illustration of the old adage, ‘there's a lot of money in poverty’.

The debate around the film has been framed – and this helps the film in its multi-million-dollar promotion drive – in absurd terms. On the one hand we have the old 'patriots' parroting the line that "it doesn't show India in a Proper Light' (by now, even they’ve been won over thanks to the Viagra of success). On the other hand, there are those who say that Slumdog is a brave film that is not scared to plum the depths of India 'not-shining'.

Slumdog Millionaire does not puncture the myth of ‘India shining'— far from it. It just turns India 'not-shining' into another glitzy item in the supermarket. As a film, it has none of the panache, the politics, the texture, the humour, and the confidence that both the director and the writer bring to their other work. It really doesn’t deserve the passion and attention we are lavishing on it. It's a silly screenplay and the dialogue was embarrassing, which surprised me because I loved The Full Monty (written by the same script writer). The stockpiling of standard, clichéd, horrors in Slumdog are, I think, meant to be a sort of version of Alice in Wonderland – ‘Jamal in Horrorland’. It doesn't work except to trivialize what really goes on here. The villains who kidnap and maim children and sell them into brothels reminded me of Glenn Close in 101 Dalmatians.



Politically, the film de-contextualises poverty – by making poverty an epic prop, it disassociates poverty from the poor. It makes India’s poverty a landscape, like a desert or a mountain range, an exotic beach, god-given, not man-made. So while the camera swoops around in it lovingly, the filmmakers are more picky about the creatures that
inhabit this landscape.

To have cast a poor man and a poor girl, who looked remotely as though they had grown up in the slums, battered, malnutritioned, marked by what they’d been through, wouldn't have been attractive enough. So they cast an Indian model and a British boy. The torture scene in the cop station was insulting. The cultural confidence emanating from the obviously British 'slumdog' completely cowed the obviously Indian cop, even though the cop was supposedly torturing the slumdog. The brown skin that two share is too thin to hide a lot of other things that push through it. It wasn’t a case of bad acting – it was a case of the PH balance being wrong. It was like watching black kids in a Chicago slum speaking in Yale accents.

Many of the signals the film sent out were similarly scrambled. It made many Indians feel as though they were speeding on a highway full of potholes. I am not making a case for verisimilitude, or arguing that it should not have been in English, or suggesting anything as absurd as 'outsiders can never understand India.' I think plenty of Indian filmmakers fall into the same trap. I also think that plenty of Indian filmmakers have done this story much, much better. It's not surprising that Christian Colson – head of Celedor, producers of ‘Who Wants to be a Millionaire?’ – won the Oscar for the best film producer. That's what Slumdog Millionaire is selling: the cheapest version of the Great Capitalist dream in which politics is replaced by a game show, a lottery in which the dreams of one person come true while, in the process, the dreams of millions of others are usurped, immobilizing them with the drug of impossible hope (work hard, be good, with a little bit of luck you could be a millionaire).


The pundits say that the appeal of the film lies in the fact that while in the West for many people riches are turning to rags, the rags to riches story is giving people something to hold on to. Scary thought. Hope, surely, should be made of tougher stuff. Poor Oscars. Still, I guess it could have been worse. What if the film that won had been like Guru – that chilling film celebrating the rise of the Ambanis. That would have taught us whiners and complainers a lesson or two. No?

Wednesday 11 February 2009

CHEENI KUM? ‘Fatima dating George Clooney’




CHEENI KUM?


‘Fatima dating George Clooney’
Posted on 11 February 2009
Tags: Fatima Bhutto, Fatima dating Clooney, George Clooney


THE American political salt-n-pepper actor has apparently been wooing slain Pakistani prime minister Benazir Bhutto’s niece, Fatima Bhutto, a 26-year-old poet and journalist, reported American magazine The National Enquirer on Tuesday.

“He’s still out there with his usual assortment of Hollywood eye-candy hanging from his arm,” a film industry source told The Enquirer. “But George insists those days could be coming to an end if Fatima wants to take their relationship to the next level and spend some serious time with him in the US.” “Tricky long distance, Pakistan-to-US dating logistics aside, we think the two would make a nice couple. I mean, just look at her CV. She’s a far cry from Clooney’s last girlfriend, the be-breasted cocktail waitress Fear Factor contestant, Sara Larson.

Fatima Bhutto has a BA in Middle Eastern studies from Barnard and a Masters in South Asian Studies from University of London. So she’s educated.”

According to The National Enquirer, Clooney is also said to be uncharacteristically serious about her, especially considering how smart and independent she is. Although Clooney has been able to keep the relationship under wraps, in private he is gushing to pals about the raven-haired Fatima, say insiders.

George and Fatima met at an international conference last year. George quickly fell for her, revealed the source.

“Fatima was educated at Columbia University… and knew of his heartthrob rep, but she didn’t take his advances seriously because she thought their age difference - not to mention where they each lived - would make a serious relationship impractical. But George has courted her by phone and e-mail and arranged to meet her abroad when their schedules allowed it. Now he wants her to spend time with him in Hollywood.”
http://pkonweb.com/?p=1858
www.despardes.com

Wednesday 4 February 2009

’فیس بک‘ پانچ سال کی ہوگئی









’فیس بک‘ پانچ سال کی ہوگئی

وقتِ اشاعت: Wednesday, 04 February, 2009, 10:28 GMT 15:28 PST

فیس بک کی سہولت دنیا کی پینتیس زبانوں میں موجود ہے
انٹرنیٹ پر سماجی تعلقات(سوشل نیٹ ورکنگ) کے حوالے سے مشہور ویب سائٹ’فیس بک‘ بدھ کو اپنی پانچویں سالگرہ منا رہی ہے۔
’فیس بک‘ کا آغاز فروری سنہ 2004 میں امریکی طالبعلم مارک زکربرگ نے کیا تھا اور آج دنیا بھر میں اس کے پندرہ کروڑ صارفین ہیں جن میں سے سّتر فیصد غیر امریکی ہیں۔
مارک زکربرگ اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم تھے اور انہوں نے یہ سروس اپنے ہاسٹل کے کمرے سے اپنے چند دوستوں کی مدد سے شروع کی تھی اور اس کا مقصد ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جاننے کے سلسلے میں طلباء کی مدد کرنا تھا۔
اس سروس کے آغاز کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہارورڈ کے بارہ سو طلباء اس سروس پر رجسٹر ہوگئے تھے اور جلد ہی یہ نیٹ ورک دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گیا تھا۔
سنہ 2005 کے آخر میں فیس بک کو برطانیہ میں متعارف کروایا گیا اور آج فیس بک کی سہولت دنیا کی پینتیس زبانوں میں موجود ہے جبکہ مزید ساٹھ زبانوں میں اس پر کام ہو رہا ہے۔
’فیس بک‘ کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر مارک زکربرگ نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ’ آج جب ہم فیس بک کی پانچویں سالگرہ منا رہے ہیں ہم اس کے ارتقاء اور اسے مزید آسان بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پانچ برس کے دوران اتنی تیزی سے تعمیر کا عمل آسان نہیں تھا اور ابھی یہ سفر تمام بھی نہیں ہوا ہے‘۔
انٹرنیٹ کے سینیئر تجزیہ کار رابرٹ اینڈرل کے مطابق ’ سوشل نیٹ ورکنگ کو آج وہ مقام حاصل نہیں جو کہ اسے مستقبل میں حاصل ہونے والا ہے۔مستقبل میں یہ چیز لوگوں کی زندگی کا ایک اہم ترین جزو بن جائے گی‘۔ان کے مطابق اس وقت فیس بک بنیادی طور پر ایک ایسا معاشرتی نیٹ ورک ہے جس کی تقلید دوسرے سوشل نیٹ ورک کرنا چاہتے ہیں۔

Saturday 31 January 2009

Israr Zehri richest among senators: Assets notified

Israr Zehri richest among senators: Assets notified


By Iftikhar A. Khan and Khawar Ghumman

February 01, 2009 Sunday Safar 05, 1430
www.dawn.com

ISLAMABAD, Jan 31: Details of assets declared by Senators to the Election Commission of Pakistan (ECP) seem to ridicule the public perception as statements by some legislators perceived to be rolling in money showed that their owned properties valued only a few million rupees.

Some even claimed they did not own any property or their multi-million properties were gifted to them by ‘unknown sources’.

Federal Minister Israrullah Zehri, who faced criticism for terming the act of burying alive of three girls in Balochistan a tribal tradition, is the richest Senator, the returns showed. He owns around 50,000 acres of agricultural lands worth several billions of rupees, mostly in Balochistan.

According to Mr Zehri’s statements of assets and liabilities submitted to the Election Commission, he owns 25,000 acres of agricultural land in Kalat, 15,000 acres in Jhal Magsi, 5,000 acres in Khuzdar and 3,000 acres in Thatta.

The value of land has not been shown in his statement. According to Mr Zehri, he inherited the land, which is yet to be distributed among his family members. Mr Zehri owns bungalows in Karachi, Islamabad and Quetta and runs a transport business and also owns a construction company. His statement shows he has Rs35 million in cash and Rs33 million in bank.

Minister for Science and Technology and JUI-F Senator Azam Khan Swati owns huge properties inside and outside Pakistan, including nine houses in Bahria Town in Rawalpindi with an estimated value of Rs180 million.

His statement shows he owns properties worth over $1.6 million in the US and two under construction residential towers in the UAE worth 20 million dirhams.

Attorney-General Sardar Latif Khan Khosa is among the 50 Senators who will retire on March 11 and is among Senators who own houses in Lahore, Multan, Dera Ghazi Khan, Kasur, Rawalpindi and Islamabad, a flour mill, flats, offices, agricultural land and residential plots.

PML-Q Senator Tariq Azim is among a few parliamentarians who have declared their assets abroad.

According to his statement, he owns a house in the UK with an estimated value of £600,000 and other assets worth £120,000. The value of his house in Islamabad is around Rs28 million.

Many, including Deputy Chairman of Senate Jan Mohammad Jamali, declared they did not own a car, suggesting they either travelled by public transport or used only luxury vehicles provided by the government.

Lawmakers who routinely used luxury cars have declared that they owned cars worth just a few hundreds of thousands of rupees. Some legislators tried to prove that they were under a heavy debt.

Senate Chairman Mohammedmian Soomro, who lives in a multi-hectare farmhouse and owns a luxury bungalow in the heart of the capital, declared the value of his immovable assets to be just Rs4.689 million.

He owns houses in Karachi, Lahore, Jacobabad, Ahmedpur and Shikarpur. Among these, two houses have been gifted to Mr Soomro by his mother while the rest were also shared by his family members. The chairman has a Toyota 1998 valuing Rs350,000 only besides Rs892,324 in bank accounts.

Deputy Chairman Jan Mohammad Jamali is among Senators who do not own a car. His immovable assets are worth Rs20.1 million, including rice mills worth Rs10 million in Usta Mohammad. Mr Jamali has declared that he operates a bank account in which he has only Rs60,000. But he said he possessed jewellery worth Rs1.38 million and furniture worth Rs200,000.

Leader of the House Mian Raza Rabbani is one of the luckiest lawmakers. He was ‘bestowed’ two properties as ‘gifts’ in posh areas in Lahore and Karachi worth Rs5 million each. He did not mention whether these properties were houses or plots and did not identify his benefactor.

Mr Rabbani’s other assets include two cars, jewellery weighing 220 tolas, Rs446,000 in bank accounts and furniture worth Rs700,000.

Leader of the Opposition Kamil Ali Agha owns a property worth Rs5.62 million along with moveable assets of Rs13.5 million. The vehicle he owned and furniture and money in his bank accounts was valued at just a ‘few’ million rupees.

Parliamentary Affairs Minister Senator Babar Awan is also among senators who have declared assets abroad. His properties inside Pakistan are worth Rs77.12 million. He has provided details about a property in Spain in which he has paid advance payment of Rs15 million. He has also declared he owns movable assets, including a law firm, worth Rs4.376 million. Mr Awan owns two vehicles and operates two bank accounts with Rs192.41 million and Rs8.383 million, respectively. He has also declared details of multi-million properties owned by his wife.

Minister for Law and Justice Farooq H. Naek has declared immovable property of Rs10.201 million including plots and houses in Karachi besides an office worth Rs1.124 million. His movable assets are worth Rs10.379 million. Mr Naek has liabilities worth Rs5.669 million, including Rs3.23 million received through a crossed cheque on the closure of a foreign currency account operated by Mrs Nusrat Bhutto as her attorney.

Ports and Shipping Minister Babar Ghauri owns properties worth Rs177.55 million and movable properties worth millions of rupees.

Minister for Housing Rehmatullah Kakar has owns an ‘inherited’ property worth Rs130 million, 25 per cent share in a Quetta hospital and two kilograms of jewellery and millions of rupees in bank but he does not own any vehicle.

He also owns millions of dollars and other foreign currency accounts in foreign and local banks. He has liabilities of $1.1 million payable to banks in the United States as loans.

PML-N’s parliamentary leader in the Senate Ishaq Dar owns immovable property in Pakistan worth Rs49.5 million while he owns a villa in the UAE for which he has paid 7.04 million dirhams. His assets also include four vehicles, two of them Mercedes. His other assets are worth millions in investments and bank accounts. There is no liability on Mr Dar.

Former Inter-Services Intelligence (ISI) chief Javed Ashraf Qazi has declared immovable properties worth Rs19.1 million besides movable properties of Rs6.09 million and operates local and foreign currency accounts worth a few million.

Senator Talha Mahmood of JUI-F has declared his immovable property including three houses and a plot worth Rs500 million and Rs114 million movable assets. His liabilities stand at Rs150 million.

PML-Q Secretary-General Senator Mushahid Hussain owns just Rs35,000 in his own name while rest of the property including a 50-acre plot of agricultural land, a 600-square-yard plot and a luxury house in Islamabad are either owned by his wife or shared by his two brothers. A Suzuki car worth Rs300,000 is owned by his wife.

JUI-F’s Secretary-General Senator Abdul Ghafoor Haideri has a house and a plot worth Rs400,000 and Rs150,000, respectively, and furniture valued at Rs100,000. He has no other assets.

MQM’s Mohammad Ali Brohi is among ‘poor’ senators. He owns a house valued at just Rs600,000 and jewelry worth Rs500,000 and furniture of Rs250,000.

Ratna Bhagwandas Chawla, elected on a minorities’ seat, has no immovable property. However, she got loans and advances worth Rs147 million. Ms Chawla, however, operates bank accounts with Rs2.409 million in her name.

Senator Maulana Gul Naseeb is among the poorest of Senators with just Rs30,000 in his bank account. He has no other assets.

http://www.dawn.com/2009/02/01/top2.htm

Friday 30 January 2009

بی بی سی اور غزہ




















بی بی سی اور غزہ


وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

وقتِ اشاعت: Sunday, 25 January, 2009, 11:21 GMT 16:21 PST

بی بی سی نے غزہ متاثرین کے لیے امدادی اپیل نشر کرنے سے منع کردیا تھا
اب سے سترہ برس پہلے جب میں نے بی بی سی کی ملازمت اختیار کی تو ایک تربیتی ورکشاپ کے دوران انسٹرکٹر نے یہ نکتہ بھی بتایا کہ بی بی سی مفادِ عامہ کی بنیاد پر قائم نشریاتی ادارہ ہے جو کسی خاص مفاد، لابی یا حکومت کا ترجمان نہیں ہے۔اس لئے بی بی سی کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ ذاتی تعصبات اور دباؤ سے بالا ہوکر حقائق میں ردوبدل کیے بغیر متوازن اور غیرجانبدارانہ صحافت کو یقینی بنایا جائے۔
ورکشاپ میں توازن اور غیرجانبداری کے موضوع پر کئی دلچسپ سوالات سامنے آئے۔ایک سوال یہ تھا کہ اگر کسی مظاہرے پر گولی چل جائے اور آپ کے سامنے کچھ لوگ شدید زخمی حالت میں پڑے ہوں تو کیا آپ انکی جان بچانے کے لئے کسی بھی طرح کی مدد کریں گے یا خود کو صرف رپورٹنگ تک ہی محدود رکھیں گے۔ ورکشاپ کے کچھ شرکاء کا خیال تھا کہ ہمیں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ بحیثیت انسان متاثرہ لوگوں کی ممکنہ مدد بھی کرنی چاہئیے۔ جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ ہماری ذمہ داری صرف حقائق کی رپورٹنگ ہے۔اس سے زیادہ کچھ کرنے پر ہم اس واقعہ میں فریق بن جائیں گے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھا کہ پیشہ ورانہ توازن یا غیرجانبداری کوئی جامد شئے ہے یا زمانے کے ساتھ ساتھ اس کی تشریح و توضیح بھی دیگر تشریحات کی طرح تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
مثلاً آج جسے صحافتی توازن اور غیرجانبداری کہا جاتا ہے،اگر اس تشریح کو دوسری عالمی جنگ کے دور پر لاگو کیا جاتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ ریڈیو سے چارلس ڈیگال سمیت یورپ کے ان تمام جلاوطن رہنماؤں کو ایسے خطابات و اعلانات نشر کرنے کی اجازت ہوتی جن کا مقصد اپنے اپنے ملکوں پر قابض نازیوں کے خلاف قومی مزاحمت کو ابھارنا تھا۔ تاوقتیکہ ہٹلر کے نمائندوں کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا۔
بی بی سی کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس طرح کی امدادی اپیل چاہے کتنی ہی احتیاط سے کیوں نہ مرتب کی جائے۔اسے نشر کرنے سے بی بی سی کی غیرجانبداری پر عوامی اعتماد مجروح ہوسکتا ہے۔یہ دلیل درست نہ سمجھنے والوں کا موقف یہ ہے کہ ماضی میں برما کےسمندری طوفان کے متاثرین کی امداد کے لئے بی بی سی ڈی ای سی کی انسانی اپیل نشر کرچکا ہے۔تو کیا انسانی امداد کی ضرورت صرف سمندری طوفان کے متاثرین کو ہوتی ہے۔بموں

اور اگر اسی نشریاتی پالیسی پر عالمی جنگ کے بعد بھی کاربند رہا جاتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ بی بی سی انیس سو بیاسی میں برطانیہ اور ارجنٹینا کے درمیان لڑی جانے والی فاک لینڈ جنگ کی کوریج آزادانہ اور غیرجانبدارانہ طریقے سے کرنے کے حق پر تھیچر حکومت کی نکتہ چینی کے باوجود ڈٹا رہتا۔ یہ وہ سوالات تھے جن کا تربیتی ورکشاپ میں کوئی متفقہ جواب سامنے نہ آسکا۔
اسی طرح جب سن دو ہزار تین میں عراق امریکہ جنگ کے دوران صحافیوں کو امریکی اور برطانوی فوجی یونٹوں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ تو یہ سوال اٹھا کہ کیااس طرح کی رپورٹنگ بی بی سی کی توازن اور غیرجانبداری کی تعریف پر پورا اتر سکے گی۔اس کا یہ حل نکالا گیا کہ فوجی یونٹوں سے منسلک رپورٹر یا بی بی سی کے میزبان ہر مراسلے کے بعد یہ وضاحت کریں گے کہ یہ رپورٹنگ کن حالات میں کی جا رہی ہے۔
یہ باتیں مجھے یوں یاد آرہی ہیں کہ بی بی سی نے برطانوی فلاحی تنظیموں کے گروپ ڈزآسٹر ایمرجنسی کمیٹی ( ڈی ای سی) کی جانب سے غزہ کے متاثرین کی اپیل یہ کہہ کر نشرکرنے سے انکار کردیا ہے کہ اسے شبہہ ہے کہ موجودہ غیریقینی حالات میں ڈی ای سی کی امداد غزہ پہنچ پائے گی۔ تاہم بی بی سی کے اس موقف کے خلاف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ یہ طے کرنا نشریاتی اداروں کا نہیں بلکہ امدادی اداروں کا کام ہے کہ وہ کس طرح امداد متاثرین تک پہنچاتے ہیں۔
بی بی سی کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس طرح کی امدادی اپیل چاہے کتنی ہی احتیاط سے کیوں نہ مرتب کی جائے۔اسے نشر کرنے سے بی بی سی کی غیرجانبداری پر عوامی اعتماد مجروح ہوسکتا ہے۔ یہ دلیل درست نہ سمجھنے والوں کا موقف یہ ہے کہ ماضی میں برما کےسمندری طوفان کے متاثرین کی امداد کے لئے بی بی سی ڈی ای سی کی انسانی اپیل نشر کر چکا ہے۔ تو کیا انسانی امداد کی ضرورت صرف سمندری طوفان کے متاثرین کو ہوتی ہے۔ بموں کے متاثرین کو نہیں ہوتی۔اور اگر پھر بھی بی بی سی کو اپیل نشر کرنے میں تامل ہے تو وہ اس اعلان کے ساتھ بھی یہ نشر کرسکتا ہے کہ اس اپیل کے مواد کا بی بی سی کی ادارتی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے بی بی سی اور دیگر نشریاتی ادارے برطانوی سیاسی جماعتوں کا منشور پارٹی پولٹیکل براڈ کاسٹ کہہ کر نشر کرتے ہیں۔
اس تنازعے میں ایک جانب بی بی سی تنہا کھڑا ہے تو دوسری جانب بین الاقوامی فلاحی تنظیمیں، حکومتِ برطانیہ اور آئی ٹی وی ، چینل فور اور چینل فائیو جیسے نشریاتی ادارے ہیں۔جن کا موقف ہے کہ غزہ کا المیہ جتنا عسکری یا سیاسی ہے۔اس سے کہیں زیادہ انسانی ہے۔

Wednesday 28 January 2009

یشنل کالج آف آرٹس سے فارغ تحصیل ہونے والے طلباء کے کام کی نمائش۔




این سی اے میں نمائش

نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ تحصیل ہونے والے طلباء کے کام کی نمائش۔



NATIONAL COLLEGE OF ARTS -LAHORE PAKISTAN , STUDENTS ARE PRESENTING THIER FINAL THESIS THROUGH AN EXHABITION.

Tuesday 27 January 2009

پروفیسر دانی کی رحلت، ناقابلِ تلافی نقصان




وقتِ اشاعت: Tuesday, 27 January, 2009, 13:29 GMT 18:29 PST



پروفیسر دانی کی رحلت، ناقابلِ تلافی نقصان


عارف وقاربی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


وسط ایشیا کا علاقہ پروفیسردانی کی دلچسپی اور مطالعے کا محور رہا
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پروفیسر احمد حسن دانی مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی رحلت سے قوم کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ صدر پاکستان کے بقول اُن جیسے ہمہ صفت ماہرینِ عمرانیات و لسانیات روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
پروفیسر دانی کا، پِیر 26 جنوری کو، 88 برس کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال ہو گیا تھا۔
تیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف احمد حسن دانی کی آخری کتاب تاریخِ پاکستان حال ہی میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ اُن کی دیگر معروف تصنیفات شمالی پاکستان اور وسط ایشیا کی قدیم تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوں نے ساسانی بادشاہت پر بھی تحقیقی کام کیا اور جے پی موہن کے ساتھ مل کر تاریخِ انسانیت نامی انسائیکلو پیڈیا کی تیسری جلد مرتب کی۔
وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں۔
وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں

احمد حسن دانی نسلاً کشمیری تھے اور 20 جولائی 1920 کو رائے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1944 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ اس ادارے سے ایم اے کی ڈگری لینے والے پہلے مسلمان طالبِ علم تھے۔ اگلے ہی برس انھوں نے محکمہ آثارِ قدیمہ میں ملازمت اختیار کر لی اور پہلے ٹیکسلا اور اُس کے بعد موہنجوڈارو میں ہونے والی کھدائی میں حصّہ لیا۔
آثارِ قدیمہ میں اُن کی بے حد دلچسپی کے پیشِ نظر انھیں برطانیہ کی حکومت نے تاج محل جیسے اہم تاریخی مقام پر متعین کردیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے اور ڈھاکہ میں فرائض انجام دینے لگے۔
تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کو عوام تک پہنچانے کے لئے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950 میں انھوں نے وریندر میوزیم راجشاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر تاریخی نشانیاں دریافت کیں جو کہ آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز ماہرین کے تحت کام کرتے ہوئے پروفیسر دانی کے دِل میں اس بیش بہا تاریخی، ثقافتی اور تمدنی خزانے کو دیکھنے کی تمنّا پیدا ہوئی تھی جو انگریزوں نے اپنے طویل دور میں جمع کر لیا تھا۔ پروفیسر دانی کی یہ خواہش بیس پچیس برس بعد اس وقت پوری ہوئی جب خود ان کا نام تاریخ اور عمرانیات کے مطالعے میں ایک حوالہ بن چُکا تھا۔ سن ستر کی دہائی میں انھیں انگلستان اور امریکہ کے طویل مطالعاتی دوروں کا موقع مِلا۔
خود اُن کے علم و بصیرت کی چکا چوند جب مغربی دنیا میں پہنچی تو آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہر علمی اور تحقیقی اِدارہ اُن کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی دوڑ میں پیش پیش نظر آنے لگا۔ امریکہ، برطانیہ فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ انھیں جرمنی اور اٹلی میں بھی اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔
قائدِ اعظم یونیورسٹی سے تعلق
71 میں وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے قائدِاعظم یونیورسٹی میں علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کیا اور 1980 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے۔
گندھارا تہذیب میں بے پناہ دلچسپی کے باعث پروفیسر دانی کا بہت سا وقت پشاور یونیورسٹی میں گزرا۔ اسی زمانے میں انھوں نے پشاور اور لاہور کے عجائب گھروں کی تزئینِ نو کا بِیڑہ بھی اُٹھایا۔
1971 میں وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے قائدِاعظم یونیورسٹی میں علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کیا اور 1980 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے۔
ریٹائر ہونے کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور اواخرِعمر تک وہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔

Monday 26 January 2009

Ace archaeologist Dr. Ahmad Hasan Dani dead





Ace archaeologist Dr Dani dead
By Our Staff Reporter www.dawn.com

ISLAMABAD, Jan 26: Internationally acclaimed archaeologist, historian and linguist Prof Dr Ahmad Hasan Dani died here on Monday morning. He was 88.
Dr Dani had been admitted to the Pakistan Institute of Medical Sciences five days ago with heart, kidney and diabetes problems. His condition deteriorated on Sunday night and he was shifted to the ICU where he died.
He is survived by his wife, three sons — Dr Anis Ahmad Dani, Navaid Ahmad Dani, Junaid Ahmad Dani — and daughter Fauzia Iqbal Butt. He has left behind a large number of admirers, students and friends to mourn his death.
President Asif Ali Zardari expressed profound grief over the death of Prof Dani and described it as a great loss to the nation. He said the country had lost an eminent historian. His death, the president said, had left a vacuum that would be hard to fill.
He said Dr Dani’s contribution to setting up of several museums in the country and his vast publications had set the pace for future course of action in this vital field.
Prof Dani was a world renowned historian. He was regarded as an authority on archaeology, culture, linguistics, Buddhism and Central Asian archaeology and history. He was Professor of Emeritus at the Quaid-i-Azam University, a distinction bestowed on him after his retirement as Dean of the Social Sciences Department in recognition of his contributions. He was founding director of the Taxila Institute of Asian Civilisations of the university since its establishment in 1997 and founding director of the Islamabad Museum.
During his long career, Prof Dani had held various academic positions and international fellowships and conducted archaeological excavations and research. He received a number of civil awards in Pakistan and abroad. As a recognised linguist, he was proficient in more than 14 national and international languages and dialects.
An ethnic Kashmiri, Dr Dani was born in Basna, in the district Raipur in India, on July 20, 1920. He did his Masters in 1944 and became the first Muslim graduate of Banaras Hindu University. In 1945, Prof Dani started work as an archaeologist with Sir Mortimer Wheeler and took part in excavations in Taxila and Moenjodaro. He was subsequently posted at the Department of Archaeology of British India at Taj Mahal.
After partition, he moved to Dhaka and worked as assistant superintendent of the Department of Archaeology. At that time, he rectified the Verandra Museum in Rajshahi. In 1950, he was promoted to the position of superintendent-in-charge of archaeology. For 12 years (1950-62), Prof Dani worked as associate professor of history at the University of Dhaka and also as curator at Dhaka museum. During this period, he carried out archaeological research on the Muslim history of Bengal.
He also worked as a research fellow at the School of Oriental and African Studies, University of London (1958-59). In 1969, he became Asian Fellow at the Australian National University, Canberra. In 1974, he went to the University of Pennsylvania as a visiting scholar. In 1977, he was a visiting professor at the University of Wisconsin-Madison.
Prof Dani was awarded honorary fellowships of the Royal Asiatic Society of Bangladesh (1969), German Archaeological Institute (1981), Ismeo, Rome (1986) and Royal Asiatic Society (1991).
He moved to the University of Peshawar in 1962 as professor of archaeology and remained there till 1971. He conducted a number of archaeological explorations and excavations on the Stone Age and Gandhara civilisation in the Northern Areas and guided the resetting and renovation of Lahore and Peshawar museums.
In 1971, he moved to Quaid-i-Azam University in Islamabad where he established the Faculty of Social Sciences and served as its dean until his retirement in 1980.
He received an honorary doctorate from Tajikistan University in Dushanbe in 1993. The same year, Prof Dani established the Islamabad museum. Between 1992 and 1996, he was appointed adviser on archaeology to the ministry of culture. Between 1994 and 1998, he worked as chairman of the National Fund for Cultural Heritage in Islamabad. In 1997, he became honorary director at the Taxila Institute of Asian Civilisations.
Dr Dani took part in exclusive excavation works on the pre-Indus civilisation site of Rehman Dheri in northern Pakistan. He also made a number of discoveries of Gandhara sites in Peshawar and Swat and worked on Indo-Greek sites in Dir.
From 1985 he was involved in research focussing on documentation of ancient rock carvings and inscriptions on remains from the Neolithic age in the mountainous region of Gilgit-Baltistan, along with Harald Hauptmann of Heidelberg Academy of Sciences, University of Heidelberg. In 1990-91, he led Unesco’s international scientific teams for the Desert Route Expedition of Silk Road in China and the Steppe Route Expedition of the Silk Road in the former Soviet Union.
He was awarded Hilal-i-Imtiaz in 2000 and Sitara-i- Imtiaz in 1969 in recognition of his meritorious contributions. He was also awarded Légion d’Honneur by the French government in 1998, Aristotle Silver Medal by Unesco in 1997, Order of Merit by the government of Germany in 1996 and Knight Commander by the government of Italy in 1994.
Dr Dani authored more than 30 books, the latest being the History of Pakistan published in 2008. His other books include Historic City of Taxila, History of Northern Areas, Romance of the Khyber Pass, New Light on Central Asia, Central Asia Today and Human Records on Karakoram Highway.
He co-authored with J.P. Mohen the Volume III of History of Humanity, and with B.A. Litvinksy The Kushano-Sassanian Kingdom.
He was fluent in Bangla, French, Hindi, Kashmiri, Marathi, Pashto, Persian, Punjabi, Sanskrit, Seraiki, Sindhi, Tamil, Turkish and Urdu languages.
His funeral prayers will be held on Tuesday at the Abbasi market mosque, F-8/3, Islamabad, after Zohr prayers. He will be laid to rest at H-11 graveyard at 2pm

Sunday 18 January 2009

’ہم پاگل ہیں چریا نہیں

وقتِ اشاعت: Wednesday, 14 January, 2009, 18:20 GMT 23:20 PST



’ہم پاگل ہیں چریا نہیں‘


محمد حنیفمحمد حنیف، بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی


لیفٹننٹ احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ ہیں
پاکستان میں جب بھی آئی ایس آئی کا نیا چیف بنتا ہے تو اس کے بارے میں دفاعی مبصر ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک پروفیشنل سولجر ہیں لیکن جیسے ہی یہ حضرات ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو اصل میں فلسفی تھے۔ ایسی ایسی بات کرتے ہیں کہ انسان جھوم جھوم جاتا ہے۔
اختر عبدالرحمٰن جو پہلے افغان جہاد کے معمار سمجھے جاتے ہیں اپنے آپ کو فاتحِ سوویت یونین سمجھنے لگے تھے لیکن ریٹائر ہونے سے پہلے ہی اپنے باس جنرل ضیاالحق کے ہمراہ مارے گئے۔ اس لیے ان کے خیالات عالیہ جاننے کا موقع کم کم ملا۔ اس کے بعد حمید گل آ ئے اور جلال آباد فتح کرنے چل پڑے۔ بیس سال گزر چکے ہیں لیکن وہ ابھی تک جلال آباد کے راستے میں ہیں۔ ہر اخبار، ہر ٹی وی چینل پر ان کا سٹاپ ہوتا ہے شاید اسی لیے یہ سفر کبھی ختم نہ ہوگا۔
جنرل اسد درّانی کے کارنامے کسی کو یاد نہیں لیکن میں نے انہیں بین الاقوامی کانفرسوں میں جگتیں لگا کر پاکستان کا امیج بہتر کرنے کی کوشش کرتے ضرور دیکھا ہے۔
پاگل اور چریا
بیچاری اردو زبان ایک جملے میں اتنی بلاغت سہنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اردو اور پنجابی ملا کر اچھا ترجمہ ہو سکتا ہے لیکن وہ قابل اشاعت نہیں ہوگا۔ اردو اور سندھی کے ملاپ سے کہا جا سکتا ہے ’ہم پاگل ہیں چریا نہیں‘۔

ان کے بعد آنے والے جنرل جاوید ناصر کو آپ نے کبھی دیکھا ہے؟ آپ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ پردہ کرتے ہیں۔ میں نے ٹی وی پر ان کا ایک انٹرویو دیکھا۔ انکا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا۔ میں سمجھا ٹی وی خراب ہے۔ پتہ چلا کہ انہوں نے ٹی وی والوں کو انٹرویو اس شرط پر دیا تھا کہ ان کے چہرے کے آگے سیاہ سکرین لگا دی جائے۔
اس کے بعد جنرل جاوید اشرف قاضی آئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد قوم کو تعلیم دینے کی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔ پہلے انہوں نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں نواز لیگ کے صدیق الفاروق کو منہ بھر کے گالیاں دیں۔ بعد میں قرآن پاک کے سپارے کم لگے تو ان میں اضافہ کر دیا۔
ضیا الدین بٹ، نواز شریف کے ہاتھوں چار پھول لگوا کر صرف کچھ منٹ ہی فوج کے سربراہ رہے۔ یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انہیں ایسا صدمہ ہوا کہ آج تک کچھ نہیں بولے۔
جنرل محمود احمد نے اپنے باس جنرل مشرف کی غیر موجودگی میں حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں تخت پر بٹھایا لیکن مشرف کی ’وار آن ٹیرر‘ کے پہلے شکار بھی وہی بنے۔ آج کل سنا ہے تبلیغی اجتماعات کی رونقیں بڑھا رہے ہیں۔
لیکن زمانہ تیز ہو گیا ہے اسی لیے آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ نے ریٹائر ہونے کا انتظار نہیں کیا اور حاضر سروس ہوتے ہوئے بھی دنیا کو اپنے خیالات عالیہ سے نوازنا شروع کر دیا۔ اور خیالات بھی کیسے ۔پاکستان کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، سیاست سب کو ایک جملے میں سمو دیا۔ جرمن رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ:The world thinks we are crazy but we are not completely out of our mindsبیچاری اردو زبان ایک جملے میں اتنی بلاغت سہنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اردو اور پنجابی ملا کر اچھا ترجمہ ہو سکتا ہے لیکن وہ قابل اشاعت نہیں ہوگا۔ اردو اور سندھی کے ملاپ سے کہا جا سکتا ہے ’ہم پاگل ہیں چریا نہیں‘۔
اس کو بلند آواز میں پڑھیں تو لگتا ہے کہ نہ صرف یہ غنائیت سے بھرپور ایک نعرہ ہے بلکہ پاکستان کے حالات کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔
جنرل شجاع نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ پاکستان میں طالبان جو بھی کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں اسے اس لیے نہیں روکا جاسکتا کہ آزادئ اظہار کا حق تو انہیں بھی ہے۔
فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے اس انٹرویو کی ایک نیم دلانہ تردید جاری کی اور کہا کہ کچھ باتیں سیاق و سباق کے بغیر لکھی گئی ہیں۔ لیکن انٹرویو لینے والے نے یہ بھی لکھا کہ جنرل موصوف انتہائی شستہ جرمن بول رہے تھے جس سے میرا یہ شک اور پکا ہوا کہ جنرل شجاع کی وردی کے پیچھے ایک فلاسفر چھپا ہوا ہے۔ آخر جرمن بڑے بڑے فلسفیوں کی زبان رہی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی جرمن فلسفہ پڑھنے کے بعد ہی پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔
جُگت برائے امیج
جنرل اسد درّانی کے کارنامے کسی کو یاد نہیں لیکن میں نے انہیں بین الاقوامی کانفرسوں میں جگتیں لگا کر پاکستان کا امیج بہتر کرنے کی کوشش کرتے ضرور دیکھا ہے۔

تو ایک ایسے ملک میں جہاں ایک طرف سوات میں بچیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں ہے، جہاں وزیرستان کے باسیوں کو اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں ہے، جہاں بلوچستان کے رہنے والوں کو اپنے ہی وسائل کا حق مانگنے کی اجازت نہیں ہے، جہاں ملک کے کروڑوں غریبوں کو عزت سے جینے اور مرنے کی اجازت نہیں ہے وہاں کم ازکم طالبان کے لیے آزادئ اظہار تو ہے۔ یہ ملک ’پاگل ہوں چریا نہیں‘ کی ایک جیتی جاگتی تصویر نہیں تو اور کیا ہے۔
پاکستانی بچوں کو سکول میں اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کا درس دیا جاتا ہے۔ یہی نعرہ کئی سرکاری دستاویزات اور عمارتوں پر بھی لکھا نظر آتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اسے خیرباد کہہ کر پاگل ہوں چریا نہیں کو اپنا قومی نعرہ بنا لیں۔ اگر میرے پاسپورٹ پر یہ نعرہ لکھا ہوگا تو اپنا سر فخر سے بلند کر کے دنیا میں کہیں بھی جا سکوں گا۔ اور جہاں جاؤں گا انہیں بھی پاسپورٹ دیکھ کر پتہ چل جائے گا کہ کون آیا ہے۔