Tuesday 27 January 2009

پروفیسر دانی کی رحلت، ناقابلِ تلافی نقصان




وقتِ اشاعت: Tuesday, 27 January, 2009, 13:29 GMT 18:29 PST



پروفیسر دانی کی رحلت، ناقابلِ تلافی نقصان


عارف وقاربی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


وسط ایشیا کا علاقہ پروفیسردانی کی دلچسپی اور مطالعے کا محور رہا
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پروفیسر احمد حسن دانی مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی رحلت سے قوم کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ صدر پاکستان کے بقول اُن جیسے ہمہ صفت ماہرینِ عمرانیات و لسانیات روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
پروفیسر دانی کا، پِیر 26 جنوری کو، 88 برس کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال ہو گیا تھا۔
تیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف احمد حسن دانی کی آخری کتاب تاریخِ پاکستان حال ہی میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ اُن کی دیگر معروف تصنیفات شمالی پاکستان اور وسط ایشیا کی قدیم تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوں نے ساسانی بادشاہت پر بھی تحقیقی کام کیا اور جے پی موہن کے ساتھ مل کر تاریخِ انسانیت نامی انسائیکلو پیڈیا کی تیسری جلد مرتب کی۔
وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں۔
وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں

احمد حسن دانی نسلاً کشمیری تھے اور 20 جولائی 1920 کو رائے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1944 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ اس ادارے سے ایم اے کی ڈگری لینے والے پہلے مسلمان طالبِ علم تھے۔ اگلے ہی برس انھوں نے محکمہ آثارِ قدیمہ میں ملازمت اختیار کر لی اور پہلے ٹیکسلا اور اُس کے بعد موہنجوڈارو میں ہونے والی کھدائی میں حصّہ لیا۔
آثارِ قدیمہ میں اُن کی بے حد دلچسپی کے پیشِ نظر انھیں برطانیہ کی حکومت نے تاج محل جیسے اہم تاریخی مقام پر متعین کردیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے اور ڈھاکہ میں فرائض انجام دینے لگے۔
تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کو عوام تک پہنچانے کے لئے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950 میں انھوں نے وریندر میوزیم راجشاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر تاریخی نشانیاں دریافت کیں جو کہ آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز ماہرین کے تحت کام کرتے ہوئے پروفیسر دانی کے دِل میں اس بیش بہا تاریخی، ثقافتی اور تمدنی خزانے کو دیکھنے کی تمنّا پیدا ہوئی تھی جو انگریزوں نے اپنے طویل دور میں جمع کر لیا تھا۔ پروفیسر دانی کی یہ خواہش بیس پچیس برس بعد اس وقت پوری ہوئی جب خود ان کا نام تاریخ اور عمرانیات کے مطالعے میں ایک حوالہ بن چُکا تھا۔ سن ستر کی دہائی میں انھیں انگلستان اور امریکہ کے طویل مطالعاتی دوروں کا موقع مِلا۔
خود اُن کے علم و بصیرت کی چکا چوند جب مغربی دنیا میں پہنچی تو آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہر علمی اور تحقیقی اِدارہ اُن کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی دوڑ میں پیش پیش نظر آنے لگا۔ امریکہ، برطانیہ فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ انھیں جرمنی اور اٹلی میں بھی اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔
قائدِ اعظم یونیورسٹی سے تعلق
71 میں وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے قائدِاعظم یونیورسٹی میں علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کیا اور 1980 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے۔
گندھارا تہذیب میں بے پناہ دلچسپی کے باعث پروفیسر دانی کا بہت سا وقت پشاور یونیورسٹی میں گزرا۔ اسی زمانے میں انھوں نے پشاور اور لاہور کے عجائب گھروں کی تزئینِ نو کا بِیڑہ بھی اُٹھایا۔
1971 میں وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے قائدِاعظم یونیورسٹی میں علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کیا اور 1980 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی سے منسلک رہے۔
ریٹائر ہونے کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور اواخرِعمر تک وہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔

No comments: